سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر سماعت، شریف خاندان کے اعتراضات

نواز شریفتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionپاکستانی پارلیمان میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے
پاکستان کی سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سماعت کا آغاز ہو گیا ہے اور شریف خاندان کی جانب سے اس رپورٹ پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔
شریف خاندان نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔
اس معاملے کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ آنے کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پیر کو اس معاملے کی سماعت دوبارہ شروع کی ہے۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق مدعا الیہان کی جانب سے سماعت کے آغاز میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو جن 13 سوالات کے جوابات معلوم کرنے کو کہا تھا ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور کمیٹی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔
سماعت کے آغاز پر شریف خاندان کی جانب سے جمع کروائے جانے والے اعتراضات میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے اور رپورٹ میں غیر جانبداری کا عنصر موجود نہیں ہے۔
شریف خاندان اور ان کے وکلا نے رپورٹ کی جلد 10 کی نقل حاصل کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔ یہ جلد جے آئی ٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے خفیہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ عدالت نے جب 17 جولائی کو اس معاملے کی سماعت کا اعلان کیا تھا تو فریقین سے یہ بھی کہا تھا کہ اب وہ پاناما کیس میں عدالتی فیصلے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ پر بات کریں اور ایسے دلائل نہ پیش کیے جائیں جو اب تک دیے جا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دس جولائی کو سپریم کورٹ میں پیش کی گئی اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے رہن سہن اور معلوم آمدن میں بہت فرق ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقوم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے اور بھاری رقوم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ سکیورٹی
Image captionسپریم کورٹ میں سماعت کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف قومی احتساب بیورو میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش بھی کی تھی۔
یہ رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد پاکستانی پارلیمان میں اپوزیشن کی بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔
سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے باہر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ وزیراعظم اب استعفیٰ دیں گے نہیں بلکہ ان سے استعفیٰ لیا جائے گا۔
ادھر متحدہ قومی مومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ ’وزیراعظم کو اخلاقی جواز پر وزارت سنبھالنی چاہیے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد جو معلومات سامنے آئی ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کے پاس اب کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے اور انھیں استعفی دے دینا چاہیے۔ ‘
’استعفیٰ نہیں دوں گا‘
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیراعظم نے چارروز قبل کابینہ اجلاس میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ الزامات، بہتان اور مفروضوں کا مجموعہ ہے۔
ان کی جماعت کی جانب سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ کسی بھی دلیل یا مستند مواد پر مشتمل نہیں

Comments